حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، جامعۃ الزہرا (س) قم کی استاد محترمہ ہاشمی نے حوزہ نیوز کی نمائندہ سے ایک انٹرویو میں گفتگو کے دوران کہا: جب رہبر معظم انقلاب حضرت زہرا (س) کی ولادت کی مناسبت کے موقع پر خواتین کے مختلف طبقوں سےخطاب کے دوران کسی مسئلے کو اٹھاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ بہت اہمیت رکھتا ہے اور اسلامی معاشرے کے کلیدی امور پر اثرانداز ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا: انقلاب اسلامی کی برکت سے خواتین نے علمی بلندیوں کو چھوا، جس سے وہ معاشرے میں نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل ہوئیں کہ آج ہم انقلاب اسلامی کے نتیجے میں خواتین کو مجتہد اور دینی مرجع کے طور پر متعارف کرانے کے قابل ہیں۔
خواتین کی تقلید کا تاریخی پسِ منظر
محترمہ ہاشمی نے کہا کہ خواتین کی تقلید کا موضوع کوئی نیا نظریہ نہیں ہے بلکہ تاریخ میں فقہا اور علما نے اس پر بحث کی ہے۔ اگرچہ اکثر علماء نے مرجع تقلید کے لیے مرد ہونے کی شرط پر بات کی ہے، بہرحال انقلاب اسلامی نے اس موضوع کو مزید واضح کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض افراد کہتے ہیں کہ رہبر معظم انقلاب کا نظریہ مشہور رائے کے خلاف ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک قدیم فقہی مسئلہ ہے۔
خاتون مجتہد کی تقلید کے متعلق دو نظریے متصور ہیں: ۱۔ نظریہ مشہور؛ جس کے متعلق مرجع کی ایک شرط "مرد ہونا" ہے۔ یہ گروہ دو دلائل کی بنا پر اپنے نظریہ کو بیان کرتا ہے۔ دلیل اول: آیات قرآنی جن میں مرد کی خواتین پر برتری ثابت ہوتی ہے اور دلیل دوم: روایات جیسا کہ عمر بن حنظلہ اور ابی خدیجہ کی روایات ہیں کہ جب امام معصوم علیہ السلام کی طرف انہوں نے رجوع کیا تو امام علیہ السلام نے "رجل منکم و منکم" یعنی "تم میں سے مرد" کا استعمال کیا۔ اسی وجہ یہ افراد مرجع تقلید کے مرد ہونے کے قائل ہیں۔
مرجع تقلید متحقق ہونے کے مراحل
انہوں نے کہا: ایک مرجع تقلید کے ثبوت کے لئے تین مراحل ہوتے ہیں:۱۔ اجتہاد 2۔صدور فتوا 3۔تقلید کے لئے اس کی طرف رجوع کا ممکن اور جائز ہونا۔ تو اب:
1. اجتہاد: تمام علماء متفق ہیں کہ خواتین درجۂ اجتہاد تک پہنچ سکتی ہیں۔
2. صدور فتویٰ: خواتین کے فتویٰ دینے اور حکم کے استخراج میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
3. تقلید کا جواز: یہاں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا خواتین کے فتوے پر عملی تقلید جائز ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا: رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بحیثیت ایک صاحبِ نظر کے اور ایک اجتماع میں اس مسئلے کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ اس نظریہ کا دلائل کے ساتھ دفاع کیا جاسکتا ہے اور گویا ان لوگوں کے دلائل کو رد کردیا جو یہ سمجھتے ہیں کہ مرجع تقلید ہونا صرف مردوں کے ساتھ مختص ہے۔
محترمہ ہاشمی نے شہید مطہری اور دیگر علماء کے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا: تقلید کے جواز کے دلائل میں سے ایک "سیرۂ عقلاء" ہے اور عقل و شرع دونوں کے مطابق عالم سے رجوع کرنا ضروری ہے، اور اس میں دلائل کے مطلق ہونے کی وجہ سے مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں۔
انہوں نے مزید کہا: امام حسن عسکری علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "وَاَمّا مَنْ کانَ مِنَ الفُقَهاءِ صَائِنا لِنَفْسِهِ حافِظاً لِدینِهِ مُخالِفاً لِهَواهُ مُطیعاً لِاَمرِ مَولاهُ فَلِلْعَوامِ اَنْ یُقَلِّدُوہ" یعنی "مجتہدین اور فقہاء میں سے جو شخص اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھنے والا، اپنے دین کی حفاظت کرنے والا ، خواھشات نفسانی کی مخالفت کرنے والا اور حکم خدا کی اطاعت کرنے والا ہو تو عوام پر لازم ہے کہ اس کی تقلید کریں"۔ یہ روایت ہر عالم مجتہد اعم از مرد و زن سب پر مطابقت کرتی ہے۔
یہ امر اس بات کا غماز ہے کہ انقلاب اسلامی نے خواتین کو علمی و دینی میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے اور انہیں معاشرتی و شرعی رہنما کے طور پر تسلیم کرنے کی راہ ہموار کی۔
آپ کا تبصرہ